بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، لبنان کے شہری اور فلسطینیوں کا انقلابی ساتھی جارج عبداللہ فرانسیسی عقوبت خانوں میں 40 پابند سلاسل رہ کر جیل سے رہا ہوگئے / جارج عبداللہ کا تعارف:
74 سالہ شخص، جنہیں 1987 میں امریکی اور اسرائیلی سفارتکاروں کے قتل میں معاونت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، کچھ گھنٹے پہلے لانمزان جیل سے رہا ہؤا اور بیروت پہنچ گیا۔ لیکن جارج عبداللہ کون ہیں اور انھوں نے کیا کیا؟
جارج عبداللہ کا تعارف
جارج ابراہیم عبداللہ 2 اپریل 1951 کو لبنان کے شمالی گاؤں قبایات میں ایک مسیحی مارونی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں ایک استاد، وہ 15 سال کی عمر میں "سیرین سوشل نیشنلسٹ پارٹی" میں شامل ہوئے، جو لبنان اور فلسطین سمیت "عظیم تر شام" کے نظریئے کی حامی تھی۔ 1978 میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے دوران زخمی ہونے کے بعد، وہ جارج حبش کی قیادت میں اینٹی امپیریلسٹ گروپ "پیپلز فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین" میں شامل ہو گیا۔ 1980 کی دہائی کے آغاز میں، جب لبنان خانہ جنگی کا شکار تھا، عبداللہ نے "مسلح لبنانی انقلابی دھڑے" نامی شام نواز اور اسرائیل مخالف مارکسسٹ، گروپ بنا لیا، جس نے فرانس میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
گرفتاری اور سزا
عبداللہ 24 اکتوبر 1984 کو لیون، فرانس میں گرفتار کر لئے گئے۔ انھوں نے غیر متوقع طور پر ایک پولیس چوکی پر جا کر مدد مانگی، یہ کہتے ہوئے کہ موساد کے ایجنٹ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ لیکن فرانسیسی انٹلیجنس نے جلد ہی الجزائری پاسپورت پر ان کی اصلی شناخت "عبدالقادر سعدی" کے نام سے کر دی جو اسی نام سے سرگرم عمل تھے۔ ان کے پیرس اپارٹمنٹ میں خودکار اسلحہ اور مواصلاتی سامان برآمد ہؤا۔ 1986 میں، اسے گروپ بنانے اور دھماکہ خيز مواد رکھنے پر چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن 1987 میں، پیرس کی ایک خصوصی عدالت نے انہیں 1982 میں دو سفارتکاروں 'امریکی فوجی اٹیچی چارلس رے اور اسرائیلی سفارت کے سیکرٹری یاکوف بارسیمانتوف' کے قتل میں معاونت اور سنہ 1984 میں ایک دوسرے سفارتکار کے قتل کی کوشش کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔
ایک ثابت قدم سیاسی قیدی
لبنانی انقلابی مسلح دھڑے، جس کے راہنماؤں میں عبداللہ بھی شامل تھے، نے 1981 اور 1982 میں فرانس میں پانچ حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی؛ جن میں سے چار حملے ہلاکت خیز تھے۔ عبداللہ نے ہمیشہ اپنی بے گناہی کا دعویٰ کیا، لیکن ان اقدامات کی سیاسی ذمہ داری "اسرائیلی اور امریکی ظلم کے خلاف مزاحمت" کے طور پر قبول کر لی۔ 1980 کی دہائی میں، انہیں غلطی سے 1985-1986 کے پیرس حملوں کا مرکزی ملزم سمجھا گیا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ حملے دوسرے گروپوں نے کئے تھے۔
آزادی کی طویل جدوجہد
عبداللہ 1999 سے مشروط رہائی کا اہل تھا، لیکن ان کی درخواستیں بار بار مسترد ہوئیں۔ 2013 میں، عدالت نے پہلی بار ـ فرانس سے جلاوطنی کی شرط پر ـ ان کی رہائی کی منظوری دی، لیکن فرانس کے وزیر داخلہ مانوئیل والس نے اس فیصلے کو روک دیا۔ اور امریکہ نے بھی فرانسیسی وزیر داخلہ کے فیصلے کی حمایت کر دی اور وکی لیکس کی جانب سے وکی لیکس کی فاش کردہ دستاویزات کے مطابق، اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے فرانس پر زور دیا کہ وہ عبداللہ کی رہائی کو روکنے کے لئے کوئی راستہ تلاش کرے۔ فروری 2025 میں، پیرس کی اپیل کورٹ نے ان کی رہائی کی منظوری دی، لیکن شرط لگائی کہ وہ متاثرین کو معاوضہ ادا کریں۔ عبداللہ جو خود کو سیاسی قیدی سمجھتے تھے، نے معاوضہ دینے سے انکار کر دیا، لیکن جون 2025 میں ان کے وکیل نے بتایا کہ ـ نشانہ بننے والوں کا معاوضہ ادا کرنے کے لئے ـ عبداللہ کے جیل والے اکاؤنٹ میں 16,000 یورو موجود ہیں، اگر چہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے۔
عبداللہ کی حمایت میں اضافہ
جارج عبد اللہ کو کئی سالوں سے بائیں بازو کے گروپوں، فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اور 2022 کے ادب کے نوبل انعام یافتہ اینی آرناؤڈ جیسی کچھ نمایاں شخصیات کی طرف سے حمایت حاصل رہی ہے۔ فرانس کے کئی شہروں میں انہیں اعزازی شہری کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کے لئے لائمزان جیل کے سامنے سالانہ مظاہرے کئے جاتے رہے ہیں۔ ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کی مسلسل قید امریکہ اور اسرائیل کے سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہے، اور وہ انہیں "یورپ کا قدیم ترین سیاسی قیدی" سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس مقدمے کے سابق امریکی وکیل جارج کیج مین (Georges Kiejman) نے بھی 2021 میں کہا تھا کہ وہ عبداللہ کا احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں رہا کر دیا جانا چاہئے، حالانکہ انھوں نے ان کے "مضبوط لیکن قابل احترام عقائد" ان پر ملامت کی اور کہا کہ ان عقائد نے ان کی رہائی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ تاہم ان کی رہائی کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اسرائیل نے اس فیصلے کو "افسوسناک" قرار دیا جبکہ لبنان نے اس کا خیر مقدم کیا۔
جارج عبداللہ نے 40 سالہ اسیری سے رہائی کے بعد اپنا موقف یوں دہرایا: "ہمیں دشمن کے مقابلے میں ـ اس کی مکمل شکست تک ـ مزاحمت کے راستے پر گامزن رہنا چاہئے۔۔۔ اسرائیل اپنی حیات اور اپنے وجود کے آخری موسم سے گذر رہا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ